خوف


"اشوک نگر، گنیش نگر، رام لیلا میدااااان!"
کنڈکٹر کی آواز سنتے ہی میں جھٹ سے کھڑی ہوگئ۔ اتنی بھیڑاور دھوٗپ میں میں نہیں چاہتی تھی کہ امّی کی باندھی ہوئ ساڑی میں کسی سے الجھ کر خراب کردوٗں۔ بس کے دھیمے ہوتے ہی میں نے ایک چھلانگ سے اوٗپر چڑھکرڈرائیورکے بائیں طرف کی سیٹ پر قبظع کرلیا۔ دو تین لوگوں نے مجھے گھوم کر بھی دیکھا کہ ساڑی میں ایسی کوٗد پھاند کون کر رہا ہے۔ میں بہرہال مطمئن ہوکر اپنے ڈایئلوگز یاد کرنے لگی۔ پچھلے سال میرا رول سبکو بہت پسند آیا تھا اسلئے اس بار مجھسے امّیدیں زیا دہ ہونگی۔
رام لیلا میدان! میں نے ایک غرور کے ساتھ کنڈکٹر کو ٹکٹ کے پیسے دیتے ہوئے کہا اور کیوں نہ کہتی پچھلے تین سال سے سیتا کا رول مجھے ہی مل رہا ہے۔میں دل ہی دل میں بہت خوش تھی۔
کنڈکٹر کے ہٹتے ہی مجھے ایک شخص میرے ایک دم سامنے بیٹھا ہوا نظر آیا۔ سفید کرتا پائجامہ پہنے، نماز کی ٹوپی لگائے ایک بڑی سی داڑھی والا شخص۔ اسنے دھوٗپ کا چشمہ پہنا ہوا تھا اور وہ مستقل مجھے گھوٗر رہا تھا۔ کبھی اوٗپر سے نیچے دیکھتا تھا کبھی نیچے سے اوٗپر مانو جیسے مجھے بھاںپ رہا ہو۔ اندر ہی اندر مجھے ایک گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ "کیا یہ کوئ دنگا کرنے والا ہے؟۔۔۔ مجھے کیا اسکو بتا دینا چاہئے کہ میں بھی مسلمان ہوٗں؟۔۔۔ پر پھریہ سندور اور منگلسوتر کو دیکھکر اور غسّہ کریگا۔۔۔ کرتا ہے تو کرنے دو، میں تو ڈرامہ میں ہندو ہوٗں کوئ اسلیئت میں تھوڈی۔۔۔۔ اور جو اسلیئت میں ہیں وہ؟۔۔ انکا کیا؟ ایسے بہت سارے خوف میرے دل میں کھلبلی مچانے لگے۔ کئ بار کوشش کی کہ اسکی طرف نہ دیکھوٗں پر نظریں بار بار اسی کی ترف جاتی تھیں۔ ایک بار تو سوچا کہ اس سے اٹھکر بول دوٗں "بھائ ساحب! نظر کا پرداہ آپ پر بھی جائز ہے۔" پر پھر میں نے اپنے آپکو ایسا کرنے سے روکا۔ میں بس آئتل کرسی ہی پڈھے جا رہی تھی کہ میری نظر بس میں بیٹھے اسی کے جیسے دو اور آدمیئوں پر پڑی۔ میری دل کی دھڑکنیں اور تیز ہوگئیں۔
بیچ بیچ میں وہ شخص ایک ایسی مسکراہٹ دیتا تھا مانو وہ جانتا ہو کہ میں مسلمان ہوں اور اسکو لگتا ہے کہ میں جو کر رہی ہوٗں وہ گناہ ہے۔ کیا واقئ؟ اگر ایسا ہوتا تو کیا مرے امّی ابّوٗ مجھے تیّار کرتے؟ دشیرے کے اس پروگرام میں مجھے ہسسہ لینے دیتے؟ اب ان لوگوں سے یہ بحس بھی تو نہیں کری جاسکتی، یہ لوگ سنتے کہاں ہیں۔ پہلے بھی تو بیجا وجہوں پر کئ دنگے ہوئے ہیں۔ بلّبھگڑھ میں 400 مسلمانوں کو سرف اسلئے ہلاک کردیا کیونکہ وہاں کہ ہندوئوں کا کہنا تھا کہ مسجد کی زمین گاوں کی پنچائت کی جاگیر ہے۔ ایسے ہی پچھلے کئ دنگے گجرات، میرٹھ اور مزفّرنگر میں بھی تو ہو چکے ہیں۔ انمیں کوئ ماسوم کہاں بتا پایا ہوگا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان۔
میں اپنی انہی خیالوں میں مبتلا تھی کہ اچانک بس رکی اور کنڈکٹر نے آواز لگانی شروع کی " آو جنکپری جنکپری!!!!!" تبھی اس شخص اور اسکے ساتھیئوں نے جیب سے ایک ڈنڈے جیسی چیز نکالی اور وہ ایک ایک کرکے بس سے اتر گۓ۔ چین کی سانس لیتے ہوئے جب مینے سامنے کی امارت کو دیکھا تو ایک شرمندگی میرے زہن پر تاری ہوگئ۔

امارت پر لکھا تھا "ںابینہ طلبہ کا ہوسٹل"۔

Comments

Popular Posts